بلا تبصرہ

1 year ago
19

‏عباسیہ حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرہ ہونے لگا،جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے.
‏پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ
‏ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟
‏دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟
‏تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیے؟
‏ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے
‏اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ہے،ابھی یہ مناظرے چل رہے تھےکہ
‏ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی
‏ اور سب کچھ تہس نہس کر گئی،مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے،سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے،جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا،کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے،آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کیئے سینکڑوں برس ہو گئے
‏مگر قسم لے لیجئے جو مسلمانوں نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو،آج ہم مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں،جلسوں اور مسجدوں کے ممبر سے کر رہے ہیں
‏ فرقے اور مسلک کے ہمارے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں،
‏اور دورِ حاضر کا ہلاکو خان ایک ایک کر کے مسلم ملکوں کو نیست و نابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے،بے گناہوں کی کھوپڑیوں کے مینار پھر بنائے جا رہے ہیں

Loading comments...