Raqse Durvesh

9 months ago
3

بشنواز نے چوں حکایت می کند
وز جدائیہا شکایت می کند

بانسری سے سُن ! کیا بیان کرتی ہے اور جدائیوں کی (کیا) شکایت کرتی ہے؟ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کی ابتداء ان اشعار سے ہوتی ہے کہ تمثیلی انداز میں مولانا رومؒ بانسری کا استعارہ استعمال کر کے پوری بنی نوعِ انسان کو یہ پیغام دیتے نظر آتے ہیں کہ سُنو بانسری کیا بیان کرتی ہے؟ بانسری کی نغمگی و غم انگیزی جدائی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔

کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند

دراصل بانسری کو جب بانس کے جنگل سے کاٹ کر دور کر دیا جاتا ہے تو اس جدائی کا غم اسکی نغمگی میں عیاں ہوتا نظر آتا ہے کہ اُس کی بانسری کی آواز کو سن کر بسا اوقات سننے والے مرد و خواتین پر بھی گریہ طاری ہو جاتا ہے۔

سینہ خواہم شٙرحہ شٙرحہ از فراق
تابگویم شرحِ دردِ اشتیاق

بانسری کی لے ایسا سینا چاہتی ہے جس میں فراق اور دوری کا غم چھلکتا نظر آتا ہے ۔ وہ اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایسا سینہ مل جائے تاکہ میں عشق کے درد کی داستان بیان کروں۔

حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ

Loading comments...