My Empire Episode 14. Last episode/ a love Story about Mongolian Duration written by Hamageer Aamri

4 months ago
23

میری ریاست
قسط نمبر 14
دریائے سندھ سے آئے کارواں کو پڑاؤ ڈالے کچھ دن گزرے تھے کہ شہزادے کو پڑاؤ اٹھانا پڑ گیا۔ لوگ اسے الزام دیتے کہ شہزادی کے سبب وہ اپنے قبیلے کو ادھر ادھر بھٹکاتا پھر رہا ہے۔ شہزادے کی پھوپھی الزام تراشی میں پیش پیش تھی۔
اس سے پہلے الزامات کی جو چوٹ پڑتی تھی، شہزادے کی ذات پر پڑتی تھی۔ لیکن اب طنز و تنقید کی زد پر شہزادی کا نام آنے لگا تو شہزادے سے یہ برداشت نہ ہوا کہ ان کے کم عقل لوگ مصائب سے ستائی ہوئی شہزادی کو کسی قسم کا الزام دیں۔ شہزادی غزل بخت کی ذات پر بلا وجہ الزامات کی چوٹ پڑ رہی تھی, کہ شہزادہ عشق میں مبتلا ہے، اس لیے اپنی قوم و قبیلے کے لیے کچھ نہیں سوچ رہا، اپنے وطن کے لیے کوئی اقدام نہیں کر رہا اور اپنی ریاست کو بحال کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا۔

شہزادہ محمد برق نے روانگی کے چند امور پر رستم خان سے مشورے لیے اور اہل پڑاؤ کو تیاری کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ اب ان لوگوں کو ان علاقوں میں جانا تھا جہاں منگول حملوں سے پہلے کبھی کسی زمانے ان کے باپ دادا کی حکومت تھی۔

جب پڑاؤ سمیٹا جا رہا تھا اور لوگ اپنا سامان باندھ رہے تھے، شہزادی غزل بخت رستم خان کے پاس آئی اور کہا کہ وہ آقا شہزادے کے ساتھ مشاورت کرنے کے دوران ان کے قریبی عزیزوں کو مقدم رکھا کریں اور شہزادہ حضور کو ترغیب دیا کریں کہ ضروری امور پر مشورے اپنے عزیز و اقارب سے کریں، ورنہ بار بار رستم خان سے مشاورت کریں گے تو شہزادہ حضور کے قریبی عزیز حسد میں مبتلا ہو جائیں گے اور ان کے دلوں میں رستم خان کے خلاف عناد بھر جائے گا۔
شہزادی کے مشورے پر رستم خان نے اسے سراہا اور خوشی کا اظہار کیا۔ وہ اس امر کو جانتے تھے لیکن انہوں نے شہزادی کے سامنے اقرار کیا کہ واقعی ان سے چند بار بے احتیاطی ہو گئی، آئندہ وہ خیال رکھیں گے۔

اس سے پہلے چند دن کے قیام کے دوران رستم خان شہزادے کے سامنے ان کی شادی کا معاملہ اٹھاتے اٹھاتے رہ گئے۔ وہ یہی سوچتے رہے کہ بات شام کو کریں گے، اگلی صبح کریں گے، دو دن بعد کریں گے اور چار دن بعد کریں گے۔ لیکن پھر اچانک انہیں پڑاؤ اٹھانا پڑ گیا اور بات بیچ میں رہ گئی۔
عین اس وقت جب رستم خان شہزادے سے بات کرنے کے لیے تیار ہو ہی چکے تھے، تو شہزادے نے پڑاؤ اٹھانے کا حکم جاری کر دیا۔ روانگی کی تیاریوں میں افراتفری سی پیدا ہو گئی اور رستم خان یہ اہم بات نہ کر سکے۔

پڑاؤ اٹھا لیا گیا اور کارواں چل پڑا تو دوران سفر رستم خان نے سوچا کہ انہیں شہزادے کی شادی کی بات خود شہزادے سے نہیں، بلکہ ان کے بڑوں سے کرنی چاہیے، خصوصا ان کی پھوپھی خاتون سے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی پھوپھی بد مزاج سی عورت ہے، پتہ نہیں وہ سیدھے منہ اس معاملے پر بات کرے گی بھی یا نہیں۔ کیونکہ وہ شہزادی غزل کو پسند نہیں کرتی تھی، اور ابھی تک تو شہزادے نے اسے شہزادی سے ملنے بھی نہیں دیا تھا، اس اندیشے کے تحت کہ ان کی پھوپھی کی بد مزاجی کی بدولت شہزادی کی اہانت نہ ہو جائے۔
شہزادی سے نہ ملنے دینا ان کی پھوپھی کو ناگوار گزرا اور وہ شہزادے کے عشق سے اور بھی متنفر ہو گئی۔
بھلا ایسی عورت سے شہزادے کی شادی کی بات کیسے کی جا سکتی تھی۔ لیکن پھر بھی رستم خان چاہتے تھے کہ اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ بات ان کی پھوپھی اور باقی عزیزوں سے ہی کی جائے۔ بات کرنے کی اجازت البتہ وہ شہزادے سے لینا چاہتے تھے یا مشورہ کرنا چاہتے تھے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ شہزادے کے قریبی عزیز جن سے رستم خان نے شہزادے کی شادی کی بات کرنی تھی، وہ بھی رستم خان سے ایسے ہی کسی ملتے جلتے موضوع پر بات کرنا چاہتے تھے اور وہ بات یہ تھی کہ قبیلے میں اس بد مزاج خاتون نے جو بدمزگی پھیلا رکھی تھی، دراصل وہ اس عورت کو رستم خان جیسے زیرک اور تجربے کار سردار کے قابو میں دینا چاہتے تھے، آسان لفظوں میں وہ لوگ اس عورت کو رستم خان سے بیاہ دینا چاہتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ آدمی اس بد مزاج خاتون کو بہت اچھے طریقے سے قابو میں رکھے گا۔ البتہ انہیں اس بات کا یقین نہ تھا کہ رستم خان اس پر راضی بھی ہوں گے یا نہیں۔ ابھی انہوں نے یہ بات شہزادہ محمد برق کو بھی نہیں بتائی تھی کہ وہ ان کی پھوپھی کے بارے کچھ اس طرح کا خیال رکھتے ہیں اور جلد یا بدیر رستم خان سے بات بھی کرنے والے ہیں۔

ہر ایک فرد کسی دوسرے فرد سے کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا تھا، اسی طرح شہزادہ محمد برق بھی ایک طرف رستم خان سے کچھ کہنا چاہتے تھے تو دوسری طرف شہزادی غزل بخت سے۔
لیکن حالات کی الٹ پھیر کی بدولت کوئی بھی کسی سے کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔

کارواں اپنے اجڑے دیار جا پہنچا جنگوں کی تباہی اور منگولوں کی لوٹ مار سے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ محلات اور در و دیوار خاموش اور ویران پڑے تھے۔

شہزادے نے سوچا تھا کہ وہ شہزادی کے لیے نئے زیورات اور ملبوسات خریدیں گے، لیکن یہاں تو بازار بھی ناپید ہو گئے تھے، اور بازار لگانے والے بھی صفہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔
جو کچھ ان کے پاس تھا یا اہل قبیلہ کے پاس وہ سب کھانے پینے میں خرچ ہوتا چلا جا رہا تھا اور جلد ہی اگر کوئی سد باب نہ کیا جاتا تو یہ لوگ کھانے پینے کے چیزوں سے بھی محروم ہونے والے تھے۔

اس حوالے سے شہزادہ محمد برق نے رستم خان سے مشورہ کیا اور رستم خان نے اس بار فوری اقدامات کیے۔ شہزادے کے قبیلے میں سے تاجر قسم کے لوگ الگ کیے اور ان کو فوری تجارتی سفر کے لیے آمادہ کیا، کہ جہاں سے بھی انہیں اشیائے ضروریہ مل سکتی ہیں چاہے بغداد اور شام و مصر ہی کیوں نہ جانا پڑے، جائیں اور جلد از جلد واپس بھی آئیں۔
اس اجڑے دیار میں ایک بھرا پرا بازار لگانا بھی انہی تاجروں کے ذمے تھا۔ جس میں زیورات ملبوسات اور زندگی کی دوسری ضروریات کے علاوہ خصوصی طور پر اشیائے خورد و نوش کی فرامی یقینی بنانی تھی۔
تاجروں کا کارواں روانہ ہو گیا۔ لیکن منزل ابھی کسی کو بھی معلوم نہ تھی، نہ بھیجنے والوں کو اور نہ سفر کرنے والوں کو۔ ایران، بغداد، شام و مصر، جہاں سے بھی انہیں کچھ ملتا وہاں تک انہیں سفر کرنا تھا اور پھر مال و اسباب کے ساتھ جلد واپس بھی آنا تھا۔

اس کے بعد رستم خان نے ریاست کی بحالی کے لیے فوری اقدامات شروع کیے۔ انتہائی سمجھدار افراد کا ایک وفد ماسکو کے خان اعظم کی طرف روانہ کیا۔
ساتھ ہی رستم خان نے شہزادے کے عزیز و اقارب کو مشاورت میں بلا کر شہزادی کی شادی کی بات چلانا شروع کر دی۔ جواب میں ان لوگوں نے رستم خان کو ایک شرط سنا دی کہ انہیں شہزادے کی پھوپھی خاتون سے شادی کرنی ہوگی۔ یہ رستم خان کے لیے ایک زبردست جھٹکا تھا۔ وہ ایک بار تو ہل کر رہ گئے، اور صاف انکار کر دیا۔ پھر بیک وقت شہزادے اور شہزادی کو آگاہ کیا کہ شہزادے کے خاندان کے لوگ اس کے بارے کیا ارادہ رکھتے ہیں اور کیا اقدام کرنے والے ہیں۔ شہزادے کی پھوپھی کو بھی آگاہ کر دیا گیا تھا، اور اس کی رضامندی لینے کی کوشش کی گئی۔ یوں یہ بات جو ڈھکی چھپی سی کئی دنوں سے چل رہی تھی، اچانک کھل کر سامنے اگئی اور ہر ایک شخص دوسرے شخص کا منہ تکنے لگا اور جائزہ لینے لگا کہ اس بارے لوگوں کے کیا تاثرات ہیں۔

رستم خان قطعا تیار نہ ہوتے، سکینہ کے بعد وہ کسی سے شادی کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن جب شہزادے کی پھوپھی نے نیم رضا مندی دکھائی اور شہزادے نے بھی بیچ میں پڑ کر زور دیا تو رستم خان مجبور ہو گئے۔ لیکن آخری قدم اٹھانے سے پہلے انہیں شہزادی غزل کی اجازت درکار تھی۔ ان کا کوئی اگے پیچھے تو تھا نہیں سوائے شہزادی کے۔ وہی رستم خان کا خاندان تھی، وہی اس کی ملکہ و سلطان، وہی سربراہ اور وہی سب کچھ۔ اس لیے رستم خان مجبورا آمادہ ہوئے اور پھر اگلے مراحل میں داخل ہونے سے پہلے شہزادی غزل بخت سے باقاعدہ اجازت طلب کی، جو انتہائی خوشی کے ساتھ شہزادی نے دے دی۔

اور پھر وہ ازدواجی بندھن میں بندھ گئے

لیکن رستم خان کو تب تک کوئی بھی بات اچھی نہیں لگ رہی تھی جب تک ماسکو سے کوئی مثبت جواب نہ آ جاتا، اگر ماسکو کے خان اعظم انکار کر دیتے تو شہزادہ برق کی ریاست ایک بار پھر غیر محفوظ ہو جاتی اور اگر جلال الدین خوارزمی اپنی سلطنت واپس نہ لے پاتے تو یہ لوگ ہمیشہ کے لیے منگولوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے۔

اس کے علاوہ رستم خان کو ایران و بغداد کی طرف گئے اپنے تاجروں کی واپسی کا بھی شدت سے انتظار تھا۔ ان لوگوں کے پہنچنے سے ہی ان کے ہاں کچھ اسباب و مال کی فراہمی ممکن ہوتی، ورنہ تب تک فاقوں کی نوبت آ سکتی تھی۔ اور قحط ویسے بھی کب سے جاری تھا، کیونکہ منگول سب کچھ تباہ کر گئے تھے، یہاں تک کہ ان جنگ زدہ علاقوں میں اب شکار بھی نہیں مل پا رہا تھا۔

اور پھر ہر طرف سے مسرت انگیز خبریں آنے لگیں۔ ایران و بغداد کی طرف گیا ہوا تجارتی کارواں مالا مال ہو کر لوٹا تھا، تاجروں نے آتے ہی شاہی محل کے قریب ایک میدان میں بازار سجا دیا اور لوگ خرید و فروخت کے لیے ٹوٹ پڑے۔
شہزادہ محمد برق اور رستم خان نے شہزادی کے لیے ایران اور بغداد سے ملبوسات اور زیورات منگوائے تھے۔

سب سے بڑی خوشی کی خبر ماسکو سے آنے والے قاصدوں نے دی۔ ماسکو کے خان اعظم باتو خان نے نہ صرف مثبت جواب دیا تھا بلکہ معاملے میں بے پناہ دلچسپی کا اظہار بھی کیا تھا اور یہاں تک کہ رستم خان کے وفد کے ساتھ خان اعظم نے اپنے قاصد بھی بھیجے۔ یعنی وہ معاملات طے کرنے میں کافی دلچسپی رکھتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ باتو خان کے باپ جوجی خان کو چنگیز خان کے باقی بیٹوں نے بے حد ستایا تھا، اب باتو خان اور اس کا چھوٹا بھائی برقائی خان کوئی ایسا موقع نہیں گنواتے تھے جو ان کے مفاد میں اور چنگیز خان کے باقی بیٹوں کے لیے اذیت کا ساماں ہو سکتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں ماسکو کا خان اعظم جہاں کہیں بھی موقع ملتا، اپنی بساط بچھانے میں کوشاں رہتا تھا، تاکہ چنگیز خان کی دیگر اولادوں اور ان کی سلطنتوں کے آس پاس اپنے قدم جمائے رکھیں اور جہاں اور جیسے بھی ہو سکے انہیں ان کی حد میں رکھیں۔
برقائی خان کے وفد کے لوگ معاملات طے کرنے کے علاوہ یہ پرکھنے بھی آئے تھے کہ شہزادہ محمد برق کس حد تک ہمت و حوصلے کے مالک ہیں اور کس قدر فوجی طاقت رکھتے ہیں۔ کہ اگر انہیں ذمہ داری سونپ دی جائے تو وہ اپنی آبائی ریاست اور ماسکو کی ماتحت ریاستوں کو خان اعظم کی مدد سے بھی اور مدد کے بغیر بھی اوغدائی خان کے لشکروں سے محفوظ رکھ بھی سکیں گے یا نہیں۔

شہزادہ محمد برق اور شہزادی غزل بخت کی شادی انہی دو مہمات کی وجہ سے رکی ہوئی تھی تاجروں نے مال و اسباب لانا تھا کیونکہ شادی میں اس کی ضرورت تھی، جو کہ لایا جا چکا تھا۔
اور دوسرا ماسکو سے اچھی خبر انے سے ہی شادی کی خوشیاں مشروط تھیں۔ اگر ماسکو کے دربار سے انکار ہو جاتا تو ان غیر محفوظ اور غیر یقینی حالات میں شادی کی خوشیاں نہیں سمیٹی جا سکتی تھیں۔
لیکن اب جب کہ مثبت جواب مل چکا تھا، تو اگلا مرحلہ شادی کا تھا۔ خان اعظم کا وفد مطمئن ہو کے لوٹا اور اب صرف ماسکوں سے پروانہ حکومت ملنا باقی تھا۔ پھر شہزادہ محمد برق اپنی آبائی ریاست، شہزادی کی آبائی ریاست اور ماسکو کی طرف سے دی گئی ماتحت ریاست کے حکمران بن جاتے۔ یعنی اب رستم خان مطمئن تھے اور شادی کی تیاریاں شروع کی جا سکتی تھیں۔

ان واقعات سے کم و بیش 28 برس بعد مصر کے سلطان بیبارس کا وفد ماسکو کے خان اعظم برکائی خان کے دربار میں جاتا ہے، اس وفد میں ایک ایسا جوان ہے جو مظفر جعفر کا بیٹا ہے۔ جی ہاں۔۔۔۔! وہی مظفر جعفر جو کبھی کسی زمانے شہزادی غزل بخت کے ہاں ملازم تھا اور سردار رستم خان کی ماتحتی میں فرائض انجام دیتا تھا۔ ابتدائی منگول حملوں کے دوران مظفر جعفر واسط ایشیا سے ہجرت کر کے ہمیشہ کے لیے مصر چلا گیا۔ دوران سفر ایران سے گزرتے ہوئے وہ رستم خان اور شہزادی غزل بخت سے ملا تھا۔ یہ لوگ اتفاقا راستے میں خیمہ زن تھے۔ مظفر جعفر نے ہی شہزادی غزل بخت اور رستم خان کو شہزادہ برق کے بارے بتایا تھا اور بہت سی معلومات دی تھیں۔ انہی معلومات کی روشنی میں ہی شہزادی غزل بخت اور رستم خان شہزادے برق تک پہنچ پائے تھے۔ بدلے میں شہزادی نے مظفر جعفر کو انعام و کرام دے کر مالا مال کر دیا تھا۔ شہزادی کا وہی انعام مظفر جعفر کے کام آیا۔ مصر پہنچ کر اس نے جائیدادیں خریدیں اور اپنی اولادوں کی بہت اچھی تعلیم و تربیت کی، اور اپنے ایک بیٹے کو سلطان مصر کے دربار تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔ آج مظفر جعفر کا وہی بیٹا جو سلطان مصر کے دربار میں ایک عہدے دار تھا، وفد کے رکن کے طور پر خان اعظم کے دربار میں کھڑا تھا۔ جب یہ لوگ ماسکو سے واپس مصر جاتے ہیں اور برقائی خان کا جواب اپنے سلطان کو پہنچا کر اپنے اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں، تو یہ جوان اپنے باپ مظفر جعفر کو ایک بڑا عجیب و غریب قصہ سناتا ہے
وہ کہتا ہے کہ بابا جان جب ہم خان اعظم برقائی خان کے دربار میں کھڑے اپنے سلطان کا پیغام سنا رہے تھے، تو عین اس وقت کسی ماتحت ریاست سے کوئی قاصد آیا تھا، جو خان اعظم برقائی خان کے نام کسی غزل بخت نامی ملکہ کا پیغام لایا تھا۔پیغام میں ہلاکو خان کے خلاف شکایات درج تھیں، جو خان اعظم برقائی خان کے گوش گزار کی گئیں۔
میرا بہت جی چاہا کہ میں اس قاصد سے ملوں اور اس سے پوچھوں کہ وہ کون سی اور کہاں کی ریاست سے آیا ہے، اور اس ریاست کی حکمران کون سی غزل بخت ہیں۔ لیکن بابا جان آپ کی نصیحت ہے کہ میں سلطان مصر کے دربار میں یا کسی اور دربار میں کوئی غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کروں۔ اس لیے میں اپنے اس ارادے سے باز رہا۔ اگر میں اس قاصد سے ملنے کی کوشش کرتا تو خان اعظم برکائی خان یا ان کے درباری مجھے مشکوک قرار دیتے اور سلطان سے میری شکایت کر دیتے تو سلطان ہمیشہ کے لیے مجھے دربار سے نکال دیتے۔ افسوس کہ میں اپنی تمنا پوری نہ کر سکا، اے کاش کہ میں اس قاصد سے مل سکتا۔
تو بابا جان یہ بتائیے کہ جس غزل بخت نامی ملکہ کا اس قاصد نے خان اعظم کے دربار میں ذکر کیا کہیں وہ آپ کی آقا شہزادی غزل بخت تو نہیں۔

مظفر جعفر ایک طویل زمانے کے بعد شہزادی غزل بخت کا نام سن کر اپنی آقا شہزادی کے لیے تڑپ اٹھا۔ اس کے دل میں ہوک سی اٹھی اور وہ چکرا کر بستر پر گر گیا۔ اس کے بیٹے پوتے اور بہوویں اس کے آس پاس جمع ہو گئے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگے۔

Loading comments...