اسلام میں عورتوں کے وارثتی حقوق اور لاہور ہا ئی کورٹ کا فیصلہ

6 months ago
32

عنوان2024 MLD 995
: عورتوں کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے 2024 MLD
995 کا جائزہ

تعارف اسلامی قانون میں خواتین کے وراثتی حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے (2024 MLD 995) میں اس بنیادی اصول کو تسلیم کیا گیا ہے کہ کسی بھی عورت کو رواج یا مالکانہ اندراجات کی بنیاد پر اس کے شرعی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ جب کوئی مسلمان وفات پاتا ہے تو اس کے تمام قانونی ورثاء فوراً اپنے شرعی حصے کے مالک بن جاتے ہیں۔

قرآن کریم میں عورتوں کے وراثتی حقوق اللہ تعالیٰ نے وراثت کے اصول واضح طور پر بیان کیے ہیں:
1. سورۃ النساء (4:7): "مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ۔ یہ (حصہ) ایک مقرر شدہ حق ہے۔"
2. سورۃ النساء (4:11): "اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اور اگر دو یا دو سے زائد بیٹیاں ہوں تو ان کا حصہ ترکے کا دو تہائی ہوگا، اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوگا..."
3. سورۃ النساء (4:176): "(اے نبی!) لوگ آپ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے: اللہ تمہیں کلالہ (ایسا شخص جس کے نہ باپ ہو نہ اولاد) کے بارے میں حکم دیتا ہے..."
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ عورتوں کے وراثتی حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں اور انہیں کسی بھی رسم و رواج کے نام پر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے (2024 MLD 995) کے قانونی اصول جسٹس چوہدری محمد اقبال نے اس فیصلے میں درج ذیل اہم نکات واضح کیے:
1. شریعت کے اصول رواج سے بالاتر ہیں:
o عدالت نے قرار دیا کہ وراثت ہمیشہ شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی، خواہ کسی علاقے کا رواج کچھ بھی ہو۔
o رسم و رواج قرآنی احکامات کو کالعدم نہیں کر سکتے۔
2. وراثت کے معاملات میں کوئی میعاد (Limitation) نہیں:
o وراثت کے حق پر وقت کی کوئی قید نہیں، یہ حق ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
o عورتیں کسی بھی وقت اپنی شرعی جائیداد کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
3. وراثتی ملکیت خود بخود منتقل ہو جاتی ہے:
o جب کوئی شخص وفات پاتا ہے، تو اس کے ورثاء فوراً اپنی شرعی ملکیت کے حق دار بن جاتے ہیں۔
o کسی بھی جعلی یا غلط ریونیو ریکارڈ کی بنیاد پر عورتوں کے حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
4. عدالتی نظیریں جو عورتوں کے وراثتی حقوق کی حفاظت کرتی ہیں:
o PLD 2012 SC 501 – سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ وراثت ہمیشہ شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
o PLD 2021 SC 812 – عدالت نے قرار دیا کہ وراثت کا حق وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا۔
o 2022 SCMR 1665 – سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وراثتی قوانین ناقابل تغیر ہیں۔

عورتوں کے حقوق پر اس فیصلے کا اثر یہ فیصلہ پاکستانی خواتین کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہ:
✔ عورتوں کے مکمل شرعی حق کی ضمانت دیتا ہے۔ ✔ مردوں کی طرف سے عورتوں کے حق غصب کرنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ ✔ قانونی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے چاہے دعویٰ دیر سے کیا جائے۔ ✔ ریونیو ریکارڈ کی جعل سازی کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔

اقدام کی ضرورت عورتوں کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
🔹 قانونی آگاہی: عورتوں کو اسلامی اور ملکی قانون کے مطابق اپنے حقوق سے آگاہ کرنا۔ 🔹 عدالتی نفاذ: عدالتوں کو شریعت پر مبنی وراثتی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانا چاہیے۔ 🔹 قانونی چارہ جوئی: جو عورتیں اپنے حقوق سے محروم کی جا رہی ہیں وہ فوری قانونی کارروائی کریں۔ 🔹 خاندانی اور سماجی معاونت: خاندانوں کو قرآن و سنت کے مطابق وراثت تقسیم کرنی چاہیے۔

نتیجہ لاہور ہائی کورٹ کے 2024 MLD 995 (لاہور) کے فیصلے نے ایک اہم نظیر قائم کی ہے جو عورتوں کے ناقابل تنسیخ وراثتی حقوق کی تصدیق کرتی ہے۔ اسلامی قانون سپریم ہے، اور کوئی بھی رسم و رواج یا غلط ریونیو ریکارڈ عورتوں کو ان کے جائز شرعی حصے سے محروم نہیں کر سکتا۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ ان الہامی اور قانونی اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور تمام وارثان، خاص طور پر عورتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

"اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، اور نہ ہی حکام کو رشوت دے کر دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرو، حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ گناہ ہے۔" (سورۃ البقرہ 2:188)

Loading comments...